غزل
جب اس کو نہیں میری ضرورت تو مجھے کیا
وہ اور سے کرتا ہے محبت تو مجھے کیا
مجھ کو بھی کوئی اور نیا دوست ملے گا
حاصل نہیں اک شخص کی صحبت تو مجھے کیا
لمحوں کا سفر ہم نے زمانوں میں کیا طے
گر مجھ کو نہ دی وقت نے مہلت تو مجھے کیا
تیرے لیے اب زیست کو ہم ہار چکے ہیں
تجھ کو نہیں احساس کی عادت تو مجھے کیا
دنیا کا ہر اک لمحہ قیامت سے گراں ہے
واں بھی جو بپا ہوگی قیامت تو مجھے کیا
پھر ہاتھ بہاروں کی دعا کو نہ اٹھیں گے
وا ہو نہ کبھی باب مروت تو مجھے کیا
:ظفر وقار تاج ظفر
0 Comments